Peshawar school attack full story

Share on facebook
Share on twitter
Share on linkedin
Share on whatsapp

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں زیرعلاج دسویں جماعت کے ایک طالب شاہ رخ نے بتایا کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو وہ نیچے بیٹھ گئے اور تھوڑی دیر کے بعد جب اٹھے تو آدھے سے زائد طلباء کو گولیاں لگی ہوئی تھیں اور وہ سب چیخ و پکار کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہال میں اٹھویں، نویں اور دسویں جماعت کے درجنوں طالب علموں کو فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جارہی تھی۔ ان کے مطابق ’ہمیں بالکل پتہ نہی نہیں چلا کہ حملہ آور کیسے اندر داخل ہوئے۔‘

میں نے دیکھا کہ مرنے والے افراد کے جسم کے حصے کمرے میں ادھر ادھر پڑے ہوئے تھے۔
شاہ رخ کے مطابق ’ میں سیٹ کے نیچے لیٹا ہوا تھا اور میرے قریب دو اساتذہ بھی تھے انہیں بھی گولیاں لگی ہوئی تھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کے تمام ساتھی کلاس فیلوز کو گولیاں لگی ہیں تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان میں کتنے ہلاک یا زخمی ہیں۔
سکینڈ ایئر کے ایک طالب علم عامر امین نے بتایا کہ کیمسٹری کا پرچہ ختم ہوکر وہ سب دوستوں کے ہمراہ سکول کے برآمدے میں بیٹھے ہوئے گپیں لگا رہے تھےکہ اس دوران سکول میں فائرنگ کی آوازیں شروع ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ’ ہم نے کلاس روم میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن ہمارا دروازہ بند کرنے سے پہلے ہی تین حملہ آوار اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کردی۔’ انہوں نے کہا کہ کمرے میں دس کے قریب لڑکے تھے اور سب کے سب ہلاک کردیے گئے۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کی سکول کی سکیورٹی انتہائی سخت ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ حملہ آوار پیچھے کی دیوار پھلانگ کر سکول میں داخل ہوئے۔
عامر امین نے مزید بتایا کہ سکول میں پہلے سے حملے کی کوئی اطلاع نہیں تھی اور نہ انہیں سکول انتظامیہ نے اس سلسلے میں کچھ بتایا تھا۔
’میں نے ایک حملہ آور کو دیکھا اس کی بڑی بڑی داڑھی تھی اور بڑے بڑے بال بھی تھے جبکہ اس نے سویٹر بھی پہنا ہوا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حملہ آور بڑے منصوبہ بندی کرکے آئے تھے کیونکہ ان کےلیے کوئی روکاوٹ نہیں تھی۔
ہمارے دوسرے نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک سکول سے باہر آنے والے ایک عینی شاہد مدثر اعوان کا کہنا تھا کہ ’جیسے ہی فائرنگ شروع ہوئی، ہم اپنی کلاسوں کی جانب بھاگے۔ سکول کے آڈیٹوریم میں نویں اور دسویں جماعت کے طلبا کی الوداعی تقریب ہو رہی تھی اور کچھ طلبا وہاں موجود تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اوپری منزل پرگیارہویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات ہو رہے تھے اور طلبا کمروں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے حملہ آوروں کو دیکھا، وہ تعداد میں چھ یا سات تھے۔ وہ ہر کمرے میں گھس گھس پر بچوں کو مار رہے تھے۔‘
ایک اور عینی شاہد نے مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اسے توڑ کر اندر آگئے اور پھر فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کی شدت سے لگتا تھا کہ وہ 20 سے 25 ہیں۔ ہم میزوں کے نیچے چھپ گئے تو انھوں نے ہمارے سر اور ٹانگوں کی جانب گولیاں چلانی شروع کر دیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا اور وہ بار بار کمرے میں آتے رہے۔ ہم میں سے کوئی نہ ہلا کیونکہ جو بھی ہلتا وہ اسے مار دیتے۔‘
سکول کی بس ڈرائیور جمشید خان نے برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہم سکول کے باہر کھڑے تھے جب اچانک فائرنگ شروع ہو گئی۔ ہر طرف افراتفری تھی اور بچے اور اساتذہ کی چیخوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔‘
اس سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک بچے کے والد نے بتایا انھوں نے اپنے بیٹے سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا جہاں سے انھیں بتایا گیا کہ پانچ سے چھ مسلح افراد سکول میں داخل ہوئے ہیں اور فائرنگ کی ہے۔
شیریں خالد وودو نامی خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی دوست کی 13 سالہ بیٹی اپنی جماعت میں زندہ بچ جانے والی واحد لڑکی تھی۔
شیریں ودود نے بتایا کہ اس بچی نے حملہ آوروں پر ظاہر کیا کہ وہ گولی لگنے کے نتیجے میں ہلاک ہو چکی ہیں لیکن جب وہ ان کی جماعت سے نکل گئے تو وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں۔
طالبہ کی ٹانگ زخمی ہے اور وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ خوش قسمتی سے وہ زیادہ زخمی تو نہیں لیکن شدید خوفزدہ ہیں۔