چلے ہم نقدِ عصیاں لے کے ۔۔۔۔ نور العین عینی

Share on facebook
Share on twitter
Share on linkedin
Share on whatsapp

      چلے ہم نقدِ عصیاں لے کے ۔۔۔۔یہ بے آب و گیاہ وادیاں،اڑتی دھول،ریت کے ٹیلے،اور تاحدِ نگاہ پھیلا ریگزار۔۔اور اس پر سربلند سیاہ چٹانیں،اس نے گاڑی کی کھڑکی میں سے دیکھتے ہوئے سوچا۔کتنے خوش نصیب ہیں یہ۔کائنات کا سب سے خوبصورت خطۂ زمین بھی انکی برابری نہیں کر سکتا۔ پھراس نے کلائی کی گھڑی پہ نظر ڈالی،یہ سفر اتنا طویل کیوں ہو گیا ہے۔آخر کب ختم ہوگا،کب میری آنکھیں دید سے سیراب ہونگی کب ان مقدس جالیوں سے لپٹ  کر اپنی محرومی پرآنسو  بہاونگا۔وہ سوچتا رہا اور تصور ہی تصور میں درِ مصطفےؐ کو  نگاہوں سے بوسے دیتا رہا۔ 

 

                          اپنی وارفتگی پر وہ خود حیران ہوا اور دیر تک  اس کیفیت سے لطف اندوز ہوتا رہا۔۔۔ ۔۔ پھرایکدم ہی ذہن کے کسی گوشے میں ایک شرمندہ  سااحساس ابھرا۔ایڈم ،ایک لاابالی ، لاپرواہ اور اخلاقیات ببےتحاشا پرخاش رکھنے والا  نوجوان،مذہب سے اسے کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی۔۔حتی کہ عیسائیت کے بار ے میں اسکی معلومات واجبی نوعیت کی تھیں مگر جیسا کہ ایک عمومی رویہ اپنے مغربی معاشرے میں محسوس کرتا رھا تھا۔اس نے اسے مسلمانوں کا سخت مخالف کر دیا تھا وہ انہیں دنیا کی سب سے حقیر مخلوق  گردانتا آیا تھا۔اس کا ذہن سوچتے سوچتے بہت دور نکل گیا۔اس وقت  جب اسکی زندگی میں  ایک عظیم انقلاب  آیا تھا جب اس کا سیاحت کا شوق اسے مشرق کی قدرتی خوبصورتی کی طرف کشاں کشاں کھینچ لایا۔وہ تو کوئی اور ہی تصور لے کر آیا تھا مگر  یہاں کا طرز معاشرت دیکھ کر دنگ رہ گیااسنے تو سنا تھا مسلمان وحشی ہوتے ہیں ،دہشت گرد اور جزباتی ہوتے ہیں مگر وہ سوچتا ایک دوسرے کو عام حالات میں ملتے ہوئے سلامتی کی دعا دینے والے وحشی کیسے ہو سکتے ہیںاتنی پرامن رہن سہن کی حامل مخلو ق  سے کوئی دہشت گردی کی توقع کیسے رکھ سکتا ہے۔۔حالانکہ تخریبی عوامل تو ہر معاشرے کا حصہ ہیں۔یہیں اس  کی سوچوں میں وسعت پیدا ہوتی چلی گئی تھی اور وہ ایک روشن  راستے کا راہی بن گیا تھا ۔۔حقیقت حال کی کھوج نے اس پر  سچائی کے بہت سے در وا کیے تھے۔اور سچائی کی کھوج کا یہ سفر اسکی زندگی کا یادگار ترین سفر تھا،گو کہ اس نے اس راہ پر چلتے چلتے بہت سی  نفرتوں کا سامنا کیا تھا اپنے ہی لوگوں نے اسکی راہ میں دشواریاں کھڑی کی  تھیں وہ پہروں یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں ڈگمگاتا رہا تھا۔۔۔مگر زندگی کا اہم ترین فیصلہ اس کے لیے ایک بہترین فیصلہ ثابت ہوا تھاجس پر اسے کوئی ندامت نہیں تھی ۔آج وہ محمد تھا۔اور محمد ؐ کے دین کی خوبصورتی نے اس پر وہ اثر کیا کہ وہ بس اسی کا ہوکر رہ گیا۔اب اسکی زندگی کا محور اس دین سے وابستگی اور اسکی خدمت  تھی۔                اسکے خیالات  کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب اس کے ساتھی نے گاڑی، کسی ریستوران کے سامنے روکی۔اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔’نماز اور قیام وطعام” ہادی مختصراً بولا۔نماز کے بعد دونوں ہوٹل کے ایک نسبتاً پرسکوں گوشے میں دھری کرسیوں پر ٹک گئے۔ اس بیابان میں استادہ اس چھوٹے سے ہوٹل میں اس وقتی رونق کی وجہ وہ زائرین تھےجو ان کے قافلے کا ساتھ تھے۔قریبی خلیجی ممالک  سے آئے ہوئے ان لوگوں کے چہروں سے سفر کی تھکاوٹ  واضح طور پر مترشح تھی مگر چہرے پرسکون تھے۔انکی منزل بھی وہی تھی جو اسکی تھی۔۔پہلے یہ لوگ مدینۃ النبی ؐ کی زیارت کرتے اور پھر عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ  المکرمہ جانے والے تھے۔ہوٹل کی گہما گہمی میں کہیں ٹی وی کی دھیمی آواز بھی سنائی دے جاتی۔ابھی اس نے پانی کے چند گھونٹ حلق سے اتارے تھے  کہ  زائرین میں کچھ دبی دبی سی ہلچل مچی۔۔اور لوگ چہ میگوئیاں کرتے ہوئے ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئے۔۔مارے تجسس کے وہ بھی اٹھ کرسامنے والی میز پر آ گیا۔خبرنامے کی نیوز کاسٹر  کوئی خبر سنا رہی تھی  امریکہ میں مسلمانوں کے  پیغمر محمدؐﷺ کی  شان میں گستاخی کرنے والی  فلم   کا اجراء ہو گیا ہےدنیا بھر کے مسلمان شدید غم و غصے کا شکار ہیں اور امریکی حکومت سے اس  فلم پر پابندی لگانے اور  اسکے ڈائریکٹر پر مذہبی قوانین  سے تجاوز۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جانے کیا کیا کہتی رہی اس کی سماعت جیسے وقتی طور پر زائل ہوگئی تھی ،آگے کچھ سنائی نہیں دیاپہلے گستاخانہ خاکے چھاپے گئے،کارٹون مقابلے کروائے گئے اور اب یہ سب!!۔کوئ تلخ احساس اس کے ذہن میں ابھرا تھا۔ندامت سے بھرپور،شرمندگی لیے ہوئے،مگر کیا ؟ وہ ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکاپانی کا گلاس ایکدم بھاری لگنے لگا۔۔اور ہاتھ ہولے ہولے لرزنے لگے۔۔اس نے بےاختیار دعا مانگیاوہ!خدایا ہم پر رحم فرما۔۔ہم اس فتنے سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔۔یہ لوگ کس تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔صیہونی و عیسائی  طاقتیں سمجھتی ہیںکہ ان بھونڈے ہتھکنڈوں سے ہمارے ہادئ اعظم ﷺ کی ناموس ِ مبارک کو نقصان پہنچا دیں گی۔۔محمدﷺکو جو مرتبہ و مقام حاصل ہے،وہ اللہ تبارک و تعالی کی دین ہےکہ آپ کا ذکر اللہ نے بلند کیا ہےیہ رذیلانہ حرکتیں کسی ایک دل سے محبت کا وہ پاکیزہ احساس نکال نہیں سکتیں جو ہر شخص کے دل میں رہتا ہے  یا اللہ رحم!!۔اس نے یہاں وہاں نگاہ دوڑائی ۔۔ہر چہرے پر زلزلے کے آثار تھے،غم و غصہ تھا،شدت غیظ سے امریکہ بہادر کو کوسا جا رہا تھا ۔کچھ جوشیلے نوجوان جوشِ غضب سے دیوانےہوئے جا رہے تھے۔۔ہر زبان پکار اٹھی تھی کلنا فداک یا رسولؐ اللہﷺاموالنا و اولادنا فداک یا نبیؐ اللہﷺ ہادی نے ایک فکرمند نگاہ اس پر ڈالی۔”تم ٹھیک ہو؟”اس کے بعد ٹھیک رہنا شائد کسی کے بس میں نہ ہو!!۔وہ اٹھ کھڑا ہوا اور دل میں بھاری تفکرات کا بوجھ لے کر گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔وہ ایک دفعہ پھر محو، سفر تھے۔پر اس دفعہ ہر دل دکھا ہوا تھا،ہرذہن کسی سوچ میں غرق تھا۔۔۔اب بھی انکا غصہ اپنی جگہ قائم تھامحبوب نبی ؐﷺ کی رسالت کی توہین ہر مسلمان کو اپنی توہین سے زیادہ برانگیختہ کرتی ہے۔

                             وہ اپنی اس سوچ کا سرا ڈھونڈ رہا تھا اس احساس کی تلاش میں تھا۔۔اور کچھ یاد آتا جا رہا تھااور پھر ایکدم اس کے ذہن میں کوئی جھماکا سا ہوا۔۔۔،ماضی کی ایک جھلک دیکھی تھی اس نے ۔۔۔وہی غافل ایڈم اس کی سوچوں مین آن وارد ہوا تھا اور اس کے الفاظ گونج رہے تھے۔۔وہ الفاظ نہیں تھے ۔۔۔اس نے سوچا۔وہ آگ تھی جو میں اپنے لیے دہکا رہا تھاجب میں نے مسلمانوں کے پیغمبر کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔دین اسلام پر ہرزہ سرائی کی تھی۔ہاں وہ دہکتی ہوئی آگ تھی۔۔اس کے  اپنے جملے کسی برچھے کی مانند اس کی روح میں اتر رہے تھے،یا اللہ!!۔مجھے اپنی پناہ میں لے لے خدایا۔۔یہ کیا کرتا رہا تھا میں! کس پستی میں گرا تھا میں۔        باہر کوئی رونق محسوس کرتے ہوئے اس نے کھڑکی سے دیکھا ۔۔حرم مقدس کی مضافات شروع ہو چکی تھیں اور یہ قافلہ مختلف راستوں پر رینگتا ہوا  کاشانۂ مصطفےؐﷺ  کے قریب تر ہوا جا رہا تھازائرین کا جوش عروج پر پہنچ رہا تھا ۔۔۔نماز کا وقت ہو چلا ہے ہوٹل جانےکے بجائے سیدھے حرم کی راہ لینی ہے” ہادی نے غور سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ٹھیک ہے ؛اس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہامحمد! سنبھالو خود کو۔۔جانتے ہو ہم سب کو کتنا دکھ ہوا ہے”۔کوئی کیا کر سکتا ہے۔۔اپنے لیے خود عزاب کو دعوت دے رہے ہیں وہ۔۔” اس نے اسے سمجھایاہاں جانتا ہوں مگر جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے اور اگر جان جاؤ تو نفرت ہو جائے مجھ سے ؛اس نے سوچا                                 زیارت کے طلبگار  منزل پرآ پہنچے تھے اس شہر میں جس کی آرزو ہر  مومن مرنے سے پہلے کرتا ہے وہاں بسنے کی۔۔رہنے کی یا پھر بس اس کے دیدار کے چند لمحوں کی۔حرم النبیﷺ سے اذان کی آواز سنائی دے رہی تھی۔۔اورمؤذن  کی خوش الحانی ایک ایک حرف ادا کرتے ہوئے فضاؤں میں بلال کی آوازکے نقشِ پا ڈھونڈ رہی تھی۔۔اس روایت پر چل رہی تھی اور دیوانے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔۔۔ایمان

کی طرف،روشنی کی طرف۔۔۔وہ بھی ان کے ساتھ ہولیااللہ اکبر اللہ اکبرسب کے سر جھکے ہوئے ۔۔۔باب السلام کی طرف رینگتا یہ ہجوم،۔۔کب تک یہ ندامت کا بوجھ کندھوں پہ اٹھائے چلیں گے۔۔اس کے خیال میں جیسے کوئی بولا تھااللہ بڑا ہے ۔اللہ عظیم ہے۔پھر کیوں اس  کے دین کے پرستار آج پستی کی طرف روان دواں ہیں کیوں ہر جگہ پس رہے ہیں؟وہ باب السلام کی طرف بڑھتا چلا جا رہاتھا۔۔۔شائد یہیں کہیں آس پاس کبھی ان   پاک قدموں کی چاپ ابھری اور معدوم ہوئی ہو۔ انہیں فضاؤں میں روح الامیں اور فرشتوں کا فوج در فوج نزول ہوتا آیا ہےاور وہ۔۔۔ماضی کا ایک گستاخ،نبی پاک ﷺ کا مجرم،آپ کی ناموس پر حرف لانے والا۔۔اس در سے داخل ہو رہا ہے!!۔اسے بےطرح ندامت نے گھیر لیاآنکھیں بار بار آنسوؤں کے پردے حائل کر کے اتنا پاکیزہ منظر بار بار دہندلا دیتی تھیں ،اور قدم ڈگمگا نے لگتے تھےاس نے پھر اذان کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہی اشہد ان محمد الرسول اللہ وہ دل ہی دل میں دہرانے لگا۔۔میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐﷺ اللہ کے رسول ہیں۔۔۔۔۔میں گواہی دیتا ہوں کہ۔۔۔محمد۔۔کہ۔۔۔،اس کے رونگٹے کھڑے ہ گئےآہ،کیا کیا تھا تو نے۔۔۔اے گستاخ نبی،کاش تری روح کھینچ لی جاتی  اس ظلم سے پہلے۔ ۔وہ تمام کائنات کا رب اور اس کے فرشتے اس ذات مقدس ﷺکی تعریف کرتے ہیں سلام بھیجتے ہیں اور تو نے۔۔۔۔اس کےاندر جیسے زلزلہ تھااسی کیفیت میں جانے کب سے وہیں کھڑاتھا کہ ہادی کی نظر میں آگیامحمد چلو اقامت ہونے والی ہے۔ہادی نے اسے پکارامیں نہیں جا سکتا ہادی۔۔ابھی میرے وجود سے وہ  ناپاکی اتری نہیں!۔میں نبی ﷺ  کا مجرم ہوں گستاخ رسول ہوں،کیسے جاؤں؟؟الفاظ بلک رہے تھے گویا۔آواز کانپ اٹھی  میرے بھائی یہ کیا کہہ رہے ہو،کس کی بات کر رہے ہو،کب کیا تھا تم نے ایسا کچھ؟بھول گئے کہ وہ ذات بابرکات ہر بھول ہر خطا معاف کر دیتی ہے ،درگزر کر دیتی ہے؟،میرے دوست،تم اب ایک کلمہ گو ہو،کلمہ ڈھال ہے تو اپنی پچھلی کوتاہیوں پر توبہ کرلینا یہاںپر ،رو رو کر معافی مانگ لینا،۔اس وقت چلو میرے ساتھ۔۔یہ کہتے ہوئے جو اس نے اسے دیکھا تو بےطرح بوکھلا گیا،محمد کیا ہوا؟؟!!وہ چیخ کر بولاوہ کراہ کر ایک دم جھکا اور دل تھام کر ،کھینچ کھینچ کر سانسیں لینے لگا،چہرہ پسینے  سے تربتر ہوگیاارے کوئی ہے؟خدا کے لیے مدد کرو،اسے کچھ ہو گیا ہےجماعت کے لیے جاتے لوگ انکی طرف لپکےمیرے بھائی!۔بس میرے گناہوں کا سفر ادھر تک تھا،اس نے ہانپتے ہوئے کہاآہ!۔پانی  ،اس نے کراہتے ہوئے کہاکچھ لوگ زمزم لانے دوڑےزمزم،اس سے میری آنکھیں،میرا منہ ،وہ ناپاک منہ، میرا چہرہ دہو لینا ،،کہ میرا جسم پاک ہو جائےمجھے اس  سے پاک کر دو!!،،۔میری زبان کو۔ہادی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا اور یہ انکشاف روح فرسا تھا کہ اسے دل کا دورہ۔۔۔اوہ میرے خدا!،محمد تم ٹھیک ہو جاؤ گے محمد!۔وہیں بیٹھ کر اسکا سر اپنی گود میں رکھ دیا:میرے دوست، ایمولینس آرہی ہے سب ٹھیک ہو جائے گا،حوصلہ رکھواسکی آنکھوں سے خاموش آنسو رواں تھے۔زمزم لایا گیا اور اس کے منہ سے گلاس لگایا گیاحرم النبویؐ سے اقامت کی آواز بلند ہونے لگی تھیکچھ لوگ آثار دیکھ کر کلمہ شہادت بآوازبلند پڑھنے لگے ۔۔اس کے ہونٹ بھی آہستہ آہستہ حرکت میں آگئے،ایک  حسرتناک نظر باب السلام اور گنبدِ خضرا تک   اٹھی اور ہمیشہ کیلیے جھک گئیجسم ایک دفعہ پھربڑے کرب سے تڑپا ۔۔۔۔اورایک لمبی ہچکی لی۔۔۔۔ وہ بے چین  روح ہر کرب سے آزاد ہوچکی تھی۔٭٭٭٭

 

افسانہ نگار:نور العین عینی