غزل
زیست اک خواب کی اسیر بڑی رہتی ہے
دل میں اک حزن کی جاگیر پڑی رہتی ہے
کون بتلائے میرے شانۂ احساس پہ کیوں درد کی زلفِ گرہ گیر پڑی رہتی ہے
گو تکلم میں تبسم ہی تبسم ہے مگر دل کی دنیا میری دلگیر بڑی رہتی ہے
تم کو قائل ہی نہ کرپائے یہ اپنی قسمت
ورنہ اس لہجے میں تاثیر بڑی رہتی ہے
دل مرا منتظرِ وصل ہے کب سے جبکہ
حشر آنے میں بھی تاخیر بڑی رہتی ہے
ہمکو بھی حسرتِ نشاط ہے پر قدموں میں
اپنی اوقات کی زنجیر گڑی رہتی ہے
ہاں کہاں ہم تو کہاں خوابِ حصولِ خواہش
دور اس خواب سے تعبیر بڑی رہتی ہے
لاکھ بدلوں میں تجھے اے مرے بےجاں شب و روز
رہ میں حائل میری تقدیرکھڑی رہتی ہے
کن غلافوں میں چھپاؤں اے میری محرومی
اپنے ہاتھوں تیری تشہیر بڑی رہتی ہے
میرے خاموش سے الفاظ کے لب پر عینی
اک سسکتی ہوئی تحریر گڑی رہتی ہے
نور العین عینی