دورِ حاضر کی موسیقی اور پشتون کلچر پر اسکے اثرات

Share on facebook
Share on twitter
Share on linkedin
Share on whatsapp

   !!!دورِ حاضر کی موسیقی اور پشتون کلچر پر اسکے اثرات

تاریخ گواہ ہے کہ پشتون اپنی جنگجویانہ صلاحیت کے بل بوتے پرجسطرح تیغ و تفنگ کی جھنکار  اور جنگی نعرہ ہائے جانفزا کی پکار سے میدان جنگ میں لطف اندوزہوتے رہے ہیں وہیں یہ شیر دل اپنے پہلو میں دھڑکتا ہوا ایک گداز دل ،نرم و نازک احساسات اور اتنا ہی اعلی ذوق رکھتے ہیں کہ صدیوں انکی حجرہ مجلسیں نغمۂ رباب ،باجے کے سوز و ساز سے پرجوش اور گرم ہوتی اور دلوں کو گرماتی رہی ہیں۔

              پرانے وقتوں میں موسیقی کے میدان میں آنے والے لوگ بہت سے استادوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے بعد موسیقی کے افق پر طلوع ہوتے تھے اور یہ اپنے فن کی روشنی کچھ ایسے بکھیرتے کہ چار دانگِ عالم میں انکا شہرہ ہوجاتا ،انہیں روشن ستاروں کی جھرمٹ میں ایک تابناک ستارا رفیق شینواری  ہیں جب وہ رحمان بابا حمزہ بابا کے کلام کو ڈوب کر اپنی پرسوز آواز میں گاتے تو ایک سماں بندھ جاتا اور حاضرینِ محفل بےاختیارعش عش  کر اٹھتے دمساز مروت موسیقی کی دنیا کا ایک اور معتبر نام،جہاں سوز و سا زسمیت لاجواب کلام کا حسین امتزاج بھی کثرت سے نظر آتا ہے۔اسی طرحفنِ موسیقی کے تاج میں چند اور منفرد نگینے گلزار عالم اور زرسانگا   ہیں انکی آواز و انداز کو ایک دنیا یاد کرتی ،سنتی سراہتی ہے  اور انکی خوش الحانی سے لطف اندوز ہوتی ہے۔کہتے ہیں کہ کسی وقت یا دور کی موسیقی ،ادب اور فنونِ لطیفہ اس وقت کے لوگوں کے فن اور ذوق کی عکاسی کرتے ہیں اب اگر موجودہ دور پر ایک طائرانہ نگاہ ڈال دی جائے تو صورتِ حال بالکل مختلف اور مضحکہ خیز حد تک حیران کن ہے ہماری نوجوان نسل نے اسے ایک اچھی وقت گزاری اور بہترین زریعۂ معاش بنا دیا ہے۔جو کہ روزگار کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر وہ اس فن کو اور بالخصوص پشتون کلچر کو جس انداز میں پیش کر رہے ہیں وہ قطعی طور درست نہیں ۔وہ اسے سنوارنے کے بجائے بگاڑ  رہے ہیں ۔

     آئے دن نت نئے گلوکار اس میدان میں کود کر طبع آزمائی کرتے ہیں اور اندھا دھند مغرب کی تقلید میں سرگرداں اپنے کلچر اور ادب کی پرواہ کیے بغیر وہی حلیہ اور وہی لباس زیب تن کیےحلق پھاڑ کر اورچلا چلا کر پوپ اور جیز گا رہے ہوتے ہیں ۔ہر گلوکار کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ البمز منظرِ عام پر لائے اور ایسے میں ظاہر سی بات ہے کہ معیار کم اور مقدار زیادہ والا معاملہ ہو جاتا ہے۔

       دوسری طرف خواتین گلوکاراؤں کی کارکردگی بھی زیادہ تسلی بخش نہیں ۔ گلوکارائیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں جو گانے فلمبند کرواتی ہیں  اس میں فحاشی اور غیر معیاری شاعری کے ساتھ ساتھ بےڈھنگا حلیہ،اوٹ پٹانگ  میک اپ اور جدیدیت کے نام پر عریانی کا جو بازار گرم کیا ہوتا ہےانتہائی شرمناک ہے۔اور اسے جدید دور کے تقاضوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اور وقت کی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔اب ظاہر سی بات ہے کہ جب بے سری اور بھدی آواز ہوگی یا ادبی لحاظ سے مسکین قسم کی شاعری ہوگی تو اسے  کیاپزایرائی ملے گی۔کیا جدیدیت ہمیں صحیح اور غلط کی پہچان سے غافل کر گئی؟

کہ ہم نئے وقت اور زمانے میں خود کو گم کر کے اپنی روایات فراموش کر جائیں؟!َمختصر یہ کہ پشتون کلچر ۔ادب اور روایات کو ڈوبنے سے بچانا ہوگااور اسے زندہ رکھنا ہوگا اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہوگا کہ ہم اپنے معاشرے میں صحیح قسم کی ادبی بیداری کو فروغ دیں اور وہی موسیقی رائج کی جائے پھر منظر عام پر لائی جائے جو ہماری اپنی روایات کی حقیقی  عکاسی کر سکے۔ اور یہ کہ  پشتونوں کے احساساتِ لطیف کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرے!۔ سردار علی ٹّکر جو دورِ موجودہ کی روشن مثال ہیں ، غنی خان کی انقلابی شاعری گاکر پشتون موسیقی کو ایک نئی جھت عطا کر رہے ہیں ۔حکومتِ پاکستان کی طرف سے انکو “حسنِ کارکردگی”  خطاب بھی مل چکا ہے۔،ہماری نئی نسل کو انکے نقش قدم پر چلنا ہوگا کیونکہ فن اور قابلیت کی قدر  تو ہر جگہ ہوتی ہے بشرطیکہ اسے صحیح معنوں میں  عمل میں لایا جائے

عروج خان