پشتون عورت تعلیم سے محروم کیوں؟

Share on facebook
Share on twitter
Share on linkedin
Share on whatsapp

پشتون عورت تعلیم سے محروم کیوں؟

  علم نور ہے روشنی ہے ،آگہی و ادراک کی وہ راہیں فراہم کرتا ہے جن پر چلتے چلتے انسان دیدۂ بینا کا مالک بنتا ہے یہی وہ خوبی ہے جسکی بناء پر انسان کو ملائک پر فضیلت کا شرف عطا ہوا۔ اسکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی پاک پر نازل ہونے والا پہلا  لفظ “اِقرَاء” تھا۔

 

اللہ تعالی  کے نزدیک علم اور  اہل علم کی بڑی قدر و منزلت ہے ۔۔قرآن پاک میں ارشاد  ہوا۔ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُون۔

کہہ دیجئے کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں ؟ ( سورۃ الزمر:9)

حدیث شریف میں ارشاد ہوا کہ علم کی طلب ہر مسلمان ( مرد و عورت) پر فرض ہےجیسا کہ اللہ تبارک و تعالی نے مردو زن کی تخلیق برابری و مساوات کی بنیادوں پر کی  ہےتو اسی لحاظ سے بلا تفریق دونوں کو حصولِ علم کا حکم ہوا۔ 

قرآن وحدیث میں بیان شدہ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جب ہم اپنے پشتون معاشرے میں نظر دوڑاتے ہیں تو بہت دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں  عموماً  عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہےگو کہ عام خیال یہی ہے کہ کنبے کا معاشی کفیل ہونے کی وجہ سے مرد کی تعلیم زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ آئیندہ دنوں میں اسے اچھے اور باوقار روزگار کے  حصول میں آسانی ہو اسی لیے زیادہ تر لوگ بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کو پڑھا لکھا کر  کسی قابل بنانا  پسند کرتے ہیں ۔

مگر حدیث مبارکہ کی روشنی میں عورت پر طلب ِعلم کی فرضیت کے  بھی کئی مقاصد ہیں  اسی سے اس پر فہم و فراست شعور و ادراک  کے وہ در وا  ہونگے کہ وہ معاشرے میں ایک باوقار خانگی زندگی گزارنے، اپنے بچوں کی   بہترین دینی و دنیاوی تربیت کرنے اور گھریلو نظم و نسق  بحسن و خوبی چلانے کی  اہل ہو سکے گی۔ وہ ایک بہترین ماں ،بہن بہو اور بیٹی کا کردار بخوبی نبھا پائے گی۔ نپولین کہتا تھا: تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گااسلیے کہ ماں  کی گود بچے کی اولین درسگاہ ہے وہیں سے اسکے ذہن پرغیر رسمی تعلیم  کے وہ  درس  ثبت ہونا شروع ہوتے ہیں ،جو اسے آئیندہ زندگی میں جینے کا قرینہ سکھاتے ہیں  یہ درسگاہ صحیح معنوں میں بہترین اسی وقت ثابت ہوگی جب خود فہم  و فراست اور علم و آگہی سے معمور ہوگی۔ایک پڑھی لکھی ماں ہی اپنے بچے کے ذہن کے شفاف کاغذ پر عقل و دانش،علم و فہمکے ابتدائی اثرات مرتب کر سکتی ہے جو  اسے مستقبل کا بہترین اور کامیاب انسان بنا سکیں اور وہ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکے.

پشاور سمیت چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر جہاں اب علمی بیداری کا رجحان آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے اور والدین بیٹا بیٹی  میں فرق روا رکھے بغیر اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں ۔  مگر باقی علاقوں میں جو تعلیمی زبوں حالی ہے خصوصاً سوات،مالاکنڈ، دیر کے گردونواح یا  دیگر دور دراز علاقوں میں  ملک کے باقی  علاقوں سمیت علمی بیداری اور خصوصاًتعلیم نسواں پر زور دینے کی  اشد ضرورت ہےاپنے آس پاس بہت سی پشتون بہنوں بیٹیوں کو زیورِ علم سے محروم دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں  پشتون مائیں اپنے بچوں کو وہ  درسگاہ فراہم کرنے کا وہ فرض نہیں نبھا پا رہیں جو انکے بچے کا حق ہے۔جو انکا دل ہتھیار سے قلم کی طرف مائل کر سکے!!۔بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ  وطن عزیز کے باقی  خطوں کے مقابلے میں ہمارے خیبر پختونخواہ  میں عمومی طور پر تعلیم نسواں کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہےایک اندازے کے مطابق خیبر پختونخواہ میں خواندگی کی شرح  ۵۰ فیصد ہے اور عورتوں میں شرح خواندگی صرف اور صرف ۳۰  ۔۸ فیصد ہے جو قابلِ افسوس حد تک کم او موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق بہت ناکافی ہے۔

پشتون مرد اسے اپنی غیرت کے لیے تازیانہ سمجھتے ہیں کہ بہنیں ،بیٹیاں اگر آج اعلی تعلیم سے بہرہ مند ہو گئیں تو باہر غیر مردوں کے ساتھ کام کریں گی یا کما کر لائیں گی ،حالانکہ اسلام میں  عورتوں کے لیے  یہ گنجائش رکھی گئی کہ وہ بھی اپنے  مالی مسائل کے حل کے لیے معاشی ذمہ داریاں اٹھا سکتی ہیں ۔اگر اسلامی حدود کی پاسداری کریں تو۔۔۔ قرون اولی سے ایسی  سینکڑوں روشن مثالیں ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں جہاں عورتوں نے تجارت و معیشت سمیت   زندگی کے بہت سے  شعبوں  میں یادگار کارہائے نمایاں انجام دیے۔

حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ  عنہاکی روشن مثال ہمارے سامنے ہے آپ ایک کامیاب تاجرہ تھیں اور آنحضرت سے نکاح کے بعد آپ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت کو معاشی طور پر کافی مدد دی تھی!۔ ایک اور صحابیہ حضرت شفا بنت عبد اللہ عدویہ  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےعہد حکومت میں   قضاء الحسبہ  اوراور قضاء سوق  کی نگران مقرر تھیں ۔حیف صد حیف!۔ تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہونے کے باوجود   غیرت میں آکر بیٹیوں کو محروم رکھتے ہیں اور یہ تلخ حقیقت فراموش کر دیتے ہیں کہ وہ انہیں غفلت و جہالت کی ایسیاتاہ گہرائیوں میں گھرا چھوڑ رہے ہیں کہ بےشمار علم کی پیاسی روحیں  جہالت یا ادھورے علم کے اضطراب میں سر پٹکتی رہ جاتی ہیں ۔

ہمارا یہ منفی رویہ ایک طرف،گزشتہ سالوں میں  سوات،مالاکنڈ اور دیر کے گردونواح میں مذہبی انتہا پسندی (خواہ اسکے محرکات کچھ بھی ہوں)کے نام پر۔جسطرحتعلیم کا استحصال کیا گیا اور جسطرح سکولوں کالجوں پر حملے کر کے طلباء وطالبات کو ہراساں کیا گیا  یا  انکی زندگی کی شمع گل کر دی گئی قابلِ مذمت ہے، اسلام اعتدال اور توازن کا پرچار کرتا ہے اور کبھی  دینی تعلیمات کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم جبکہ وہ ایک مثبت مقصد کے حصول کے لیے  ہو،پر قدغن نہیں لگاتا!۔تعلیم کے حصول کے لیے ملالہ کی پکار( اسکے سیاسی یا بین الاقوامی پہلوؤں سے ہٹ کر) ایک پشتون  بچی کی پکار ہے  جو پچھلے کئی سالوں سے مسلسل تعلیم کے استیصال پر ظاہر ہونے والا شدید ترین رد عمل ہے۔افسوس ہوتا ہے کہ ا اس خواہش کے اظہار پراسے اور دیگر بچیوں کائنات اور شازیہ کو گولیوں کی بوچھاڑ سے نوازا گیا۔۔

گولی چلانے والے خواہ جو بھی تھے ۔۔یہ ایک علامت تھی خیبر پختونخواہ میں تعلیمی زبوں حالی اورتعلیم کے قتل کی ایک سفاک کوشش کی!!۔کہ دیدۂ بینا کی متلاشی آنکھوں کو موت کی پھونک مار کر بجھا دیا جائے!۔مگر اب ہمیں جاگنا ہے اس خرابے میں امن اور امید کے دیپ جلانے ہیںاپنے ذہن کے دریچوں سےنئی سوچ کی ،نئی امنگوں کی تازہ ہوا کو اندر آنے دینا ہے!۔آج ایک ملالہ اٹھی ہے ،کل کئی ملالائیں حصولِ علم کا خواب آنکھوں میں سجائے نئے عزم اورولولے سے سر اٹھا کر یہ مطالبہ کریں گی کہ خیبر کی بیٹیاں اپنے  پیدائشی حق سے محروم نہ کی جائیں !۔جو شعور و آگہی ہمیں سر اٹھا کر جینے اور ایک بہترین ماں  بہن بیٹی کا  کردار بحسن و خوبی نبھانے کا ادراک دیتی ہے ہمیں عطا کی جائے!۔ یہ پکار صرف ایک بنتِ خیبر ،کسی ملالہ، کی پکار نہیں بلکہ خطۂ زمین پر بسنے والی ہر بنتِ حوا کی پکار ہے!!۔

نور العین عینی