آج بھی ہو جو براھیم کا ایماں پیدا

Share on facebook
Share on twitter
Share on linkedin
Share on whatsapp

آج بھی ہو جو براھیم کا ایماں پیدا میری نظریں دور بھت دور،ایک نقطے پر مرکوز ہیں۔دھندلا سا بہت ھی چھوٹا،اور کبھی نظروں کے ارتکاز سے یہ سامنے سے غائب ہوتا نظرآئے تو میرادل ڈوب جاتا ہے ۔جانے کیوں؟اس میں کونسی ایسی خاص بات ہے جس نے مجھے اپنی طرف دیکھنے پرمجبور کر دیا ہے۔کیونکہ یہ متحّرک ہے ساکت نہیں،اور اس کی یہ حرکت لمحہ بہ لمحہ اسے میرے قریب لارہی ہے… ۔مگر یہ کیا!یہ تو ایک گھڑسوار کا ھیولا سا ھے۔اب ھمارے درمیان فقط اتنا فاصلہ رہ گیاکہ میں اسے بخوبی دیکھ سکتی ہوں۔ سر پر سفید عمّامہ باندھے،چہرہ نقاب کی اوٹ میں چھپائے،سفید لباس زیب تن کئے،عربی النسل گھوڑے پر سواروہ شخص جانے کون ہے؟

 

اور ……مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ میں گھبرا سی گئی اور صنف نازک کا فطری خوف میرے اندر سرایت کر گیامگر نہیں، مجھے پیچھے نہیں ہٹنا،اپنی تمامتر ھمت مجتمع کر کے میں وہیں کھڑی رہی۔یہاں تک کہ ھمارے درمیان فقط چند قدم کا فاصلہ رہ گیا مگر قریب پہنچ کر سوار کا گھوڑا اس زور سے ہنہنانے لگااور اگلی ٹانگیں اٹھا کر بےقابو ہونے کی کوشش کرنے لگاکہ میں مزید بدحواس ھو گئ۔قریب تھا کہ میں پلٹ کر بھاگ جاتی مگر اس افراتفری میں بھی سوار نے مجھے ہاتھ سے رکے رہنے کا اشارہ کیا۔ مجبوراً کچھ دورکھڑے رہ کر گھوڑا قابو ہونے کا انتظار کرتی اور سوچتی رہی ”یہ اجنبی جانے کہاں سے آیا ہے؟لباس کی شکنوں،قدرے میلے پن، اور گردآلود سامانِ سفر سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہت طویل مسافت طے کر کےآیا اور اس کا گھوڑا زخمی ہے“ میں انہی خیالوں میں گم تھی جب اس نے میرے خیالوں کے تسلسل کو توڑا، ”اے بنتِ حوا!کس خیال میں کھوئی ہو؟کیا میرا حلیہ تمہیں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن کر رھا ہے؟“ آواز میں گویا صدیوں کی تھکن تھی۔اب چہرہ بےنقاب تھا۔

سفید ریش,بارعب چہرے کی ہڈیاں نمایاں،آنکھیں بےتحاشا چمکدار مگر وقت کی زور دار آندھیوں سے ماند پڑنے لگی تھیں اور چہرے کی جھریاں پکار پکار کر کہیں کہ انہوں نے وقت کے عفریت کو بارہا زندگی کے چراغوں کا لہو پیتے دیکھا ھے اور…جس کی زندگی کی کشتی کتنے سمندری طوفانوں کا شکار ھو کر اور بچ بچا کر نکلی تھی۔”میں اپنے سوال کا جواب چاھتا ہوں“ میں چونکی”ھاں۔اے بزرگ!میرے پردہء خیال پر بےشمار سوالات ابھر رہے ہیں۔میں آپ کا تعارف اور آپ کے یہاں آنے کا مقصد معلوم کرنا چاہتی ہوں“ میرا قیاس یہ کہتا تھا کہ یہ شخص بہت طویل مسافت طے کر کے یہاں پہنچا ھےلہٰذہ تھک گیا ھےمگر گھوڑے کے یہ زخم،چہ معنی؟ میں نے پوچھا،،”اگر یہ حقیقت ھے کہ آپ محاذ سے لوٹ رہے ہیں تو یہاں اس سرزمین میں آپ کے ھونے کاکیا جواز؟آپ کے نیام میں تلوار کی عدم موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ لڑنے کے قابل نہیں،پھر گھوڑے کی پشت پر پڑی وہ شکستہ ڈھال؟اور آپ نے اسے پھینکا کیوں نہیں؟آپ کے ترکش میں بےشمار تیر ہیں مگر کمان؟؟؟ بڑے غور سے میری بات سنتے رہے پھر جب بولے تو گویا پاتال کی گہرائی سے”میرا تعارف………میں کبھی ایک نام سے جانا نہیں گیا۔مجھے چڑھتے ہوئے سورج نے دریاؤں ,سمندروں،پہاڑوں،جنگلوں اور میدانوں میں ان شجاعانِ دین کی ہمراہی میں شمشیرزنی کرتے دیکھا ہے جو مثلِ عقاب اپنے شکار پرحملہ کرتے،

دریاؤں کی طوفانی لہروں کی طرح ہر چیز مثلِ خس و خاشاک بہا دیتے اور اگر ایک دفعہ جم جاتے تو… ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے جو اپنے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر یہ کہتے تھے کہ موت سے ھم اتنی ھی محبت کرتے ہیں جتنی تم زندگی سے کرتے ہو۔مجھے رات کے اندھیروں نے ان شاھبازوں کے زخموں پر صبر کا مرھم رکھتے دیکھا ھےجو زخمی ہونے کے باوجود کل کی مبازرت کیلیے پنجوں کو تیز کرنے پر آمادہ ہوتے۔کائنات شاھد ہے کہ وہ شاھین مجھ سے بلند پروازی کا سبق پڑھتے تھے۔دنیا نے انھیں عقاب کی طرح اپنے شکار پر جھپٹتے دیکھا تھا۔ کبھی اندلس کے سرسبز وسیع میدانوں میں،تو کبھی ھندوستان کے صحراؤں میں،کبھی بحیرہ قلزم کی لہروں میں،توکبھی قسطنطنیہ کے چٹیل علاقوں میں۔دنیا مجھے ان غازیوں کا خون کہا کرتی تھی،

میں ان کے خون میں گردش کرتا تھا وہ ذرا دیر کو رکے اور گھوڑے پر زین ڈالکر چرنے کیلیے چھوڑ دیا۔میں منتظرتھی کہ اب وہ اپنے مقصد کیطرف آئیںگے۔ میں آہستہ آہستہ ان کی آواز کے زیروبم کی قائل ہوتی جارہی تھی۔ وہ پھر گویا ہوئے”یہ ہے میرا تعارف اور آپ بیتی۔میری یہ بےسروسامانی دیکھتی ہو؟میری بےتلوار نیام،بےکمان تیر،اور ٹوٹی ڈھال،آہ اے چرخِ نیلی فام!!تو نے مجھے کس کمال سے زوال کی طرف پھینکا۔میں سب کچھ کھو چکا ھوں۔وہ جانباز میری تلوار تھے جنھیں میں دشمنوں پر صاعقہ کی طرح چمکاتا تھا۔میری ٹوٹی ڈھال میرے دل کے دو ٹکڑے ھیں ۔شائد کوئی آہن گری کرے۔شاید کوئی میرے ٹوٹے دل کا چارہ گر ہو۔میری نگاہیں کسی ایسے مفّکر ،مصلح اور فلسفی کی متلاشی ہیں جو مجھے تیر پھینکنے کے لئے کمان دے۔

” اے بنتِ مسلم!میری طویل مسافت کی غایت یہی تھی۔میں دیکھ رھا ہون کہ اس دین پر دنیا کے ہر گوشے سے شب خون مارا جا رہاہے۔صیہونی طاقتیں ہر سمت سے یلغار کر رہی ہیں خونِ مسلم پانی کی طرح ارزاں ہو چکا ھےاور…………اور“ وہ مزید نہ کہہ سکے۔ان کے الفاظ بےربط ہو گئے۔ ۔ وہ انتہائی ضبط سے کام لے رہے تھے۔جس کا اندازہ ان کی پیشانی پر ابھرنے والی رگوں سے ہو رہا تھا اور میری حالت یہ تھی کہ درد و تکلیف اور احساسِ ندامت گویا میرے وجود میں نشتر چبھورہے تھے۔ان کی گفتگو سو فیصد درست تھی۔ میں صرف ان سے اتنا ہی کہہ سکی”بزرگِ محترم!آپ کی سب باتیں اپنی جگہ،لیکن مسلمان خاموش نہیں بیٹھے،صیہونی و یہودی طاقتوں کا “……..منہ توڑ جواب نہیں دیتے تو کم از کم اینٹ کا جواب پتھر اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہے ہیں جبھی تو ھندوستان” پرآج ھندوراج قائم ہے؛اندلس پھر عیسائی حکومت کے ماتحت ہے ۔کہاں گئیں محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد کی قربانیاں؟کس نے اس باغ پر خزاں مسلٌط کی؟جس کے ھر پودے کو انہوں نے خونِ جگر سے سینچا تھا۔کیا دشمن نے…؟ وہ جلال میں آ گئے محترم! یقیناً دشمن نے۔آپ جانتے ہی ہیں کہ اپنا دشمن” مردِ میدان نہیں مردِ سیاست ہے ،وہ دوسرے کے کندھے پر ہتھیار رکھ کر وار کرتا ھے یہ سب انھی کی ملی جلی سازش تھی”میں نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔ اور اندلس میں کونسی سازش کی گئی؟نہیں میری بیٹی” نہیں!حقیقت یہ ہے کہ ھم مسلمان،صحیح معنوں میں مسلمان نہیں رہے۔

دینِ اسلام کو ھم نےمان تو لیامگر عام زندگی کا حصہ بنانے کی بجائے،اپنی زندگی اس کے سانچے میں ڈھالنے کی بجائے،اسے ایک رسم بنا لیا”۔ ان کی گفتگو میں تمسخر تھا یا،یاس وناامیدی۔میں سمجھ نہ سکی۔”مگر یہ بات تو طے ہے کہ یہ دین حاوی ہو کر رہیگا کہ یہی برحق ہے”میں نے سلسلہ کلام یہاں سے جوڑ کر انھیں گویا امید دلائی۔ ہاں انشاءاللہ!مگر کیا کوئی معجزہ ہو گا؟کیا اس کی حفاظت اور دفاع” کیلیے آسمان سے ابابیلیں نازل کی جائیں گی؟کیا نیل کے پانی میں گزرگاہیں بنائی جائیں گی۔تم کس تصور کی دنیا میں رہتی ھو؟تم کل کی ماں ہو اور آج کی نئی نسل کی نمائندہ،کہاں ہیں تمہارے بھائی باپ بیٹے اور شوہر۔فلسطین جل رہا ے۔کشمیر کا خوبصورت چہرہ خون کے آنسوؤں میں نہایا ہوا ہے

،افغانستان کے پہاڑبوڑھوں،بچوں عورتوں اور نوجوانوں کی مقتل گاہ بنا دیئے گئے ہیں،جنوبی ایشیا کے ہر خطے پر باطل قوتیں اپنی حریص نگاہیں مرکوز کیے بیٹھی ہیں۔ہر طرف کشت و خون کا بازار گرم ہےاور مسلمان……”ان کی آوازشدتِ غم سے کانپنے لگی۔ اور مسلمان،……روشن خیالی،امن پسندی اورتہزیب کا” لبادہ اوڑھ کر اپنے فرضِ عین سے غافل ہوگئے۔انھیں جھاد کی ترغیب دلائی جائے تو اسے امن کیلیے خطرے اور دھشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں۔دین پر عمل پیرا ہونا دقیانوسیت کی علامت بن گیا ہے مگر یاد رکھو!انفرادی کوتاہیاں تو معاف کر دی جاتی ہیں،مگر اجتماعی گناہ ایسے ہوتے ہیں جنھیں قدرت کبھی معاف نھیں کرتی۔ مجھے آپ کی بات سے اختلاف نہیں مگر آپ بات کا” صرف تاریک پہلو دیکھتے ہیں کیاآپ ان مجاھدینِ صف شکن کو فراموش کر گئے

جو کشمیر،فلسطین،عراق،شیشان اور افغانستان کے محاذوں پر جانے کب سے ڈٹے ہوئے ہیں؟ان امن کے متوالوں سے بے خبر ہیں جو اسے رائج کرنے کرنے کیلیے اپنی جان سے بھی گزر جاتے ھیں۔افغانستان،شیشان اور عراق میں جنگ بندی کیسے عمل مین آئی یہ آپ یقیناً جانتے ہوںگے۔”میں ایک سانس میں کہتی چلی گئی۔ ٹھیک!محاذ پر جنگ ختم ہو گئ مگر نفسیاتی جنگ کا کیا جواب؟” معاشرتی و ثقافتی جنگ کا کیا علاج؟ھمارے دینی عقائد کا غلط پرچار کیا گیا حتیٰ کہ داعئ اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کی بےحرمتی کی گئ۔اسلامی دنیا نے کونسا معرکہ سر کر لیا محض بیان بازی اور اظہارِافسوس کر کے؟“وہ گویا ہوئے۔ میں خاموش رہی۔”تم کچھ نہیں سمجھتی،سمجھ ہی نھیں سکتی۔میں اپنے آنے کا مقصد واشگاف الفاظ میں بیان کر دیتا ھوں۔ایک مومن کے کردار کی تکمیل کا مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ اپنی پہلی درسگاہ. !میں آنکھ کھولتا ہے۔ماں کی گود یہی وہ ماں ہے جس کی گود میں اسلامپلتا ہے اسی غیرت سے انساں نور کے سانچے میں ڈھلتا ہے مسلمانوں کی دین سے دوری کی بنیادی وجہ ماں کی ناقص تربیتہے۔

میں نہیں دیکھتا کہ دورِ موجودہ کی کسی ماں نے علی حیدر(رضی اللہ عنہ)،فاتحِ خیبر کو جنا ہو،کبھی اسے عمر ابن خطاب(رضی اللہ عنہ) کی بےباکی اور تدبٌر کی تعلیم دی ہو کبھی اسے خالد (رضی اللہ عنہ) کے نقشِ قدم پر چلنے کی ترغیب دلائی ہو؛ا سےسعد ابنِ ابی وقاص(رضی اللہ عنہ) جیسا حوصلہ دیا ہو۔کہاں ہے وہ اسماء بنتِ ابی بکر(رضی اللہ عنہا) جو اپنے بیٹے کو حق پر قربان ہونے کی ہدایت دے؟ کیا مسلمان قوم کی کھیتیاں اتنی بنجر اور ناکارہ ہو گئیں کہ پیداوار کی صلاحیت سے محروم ہیں؟کیا امٌ عمارہ، ام سلمہ،اور صفیہ(رضی اللہ عنہما) کی جراءت ان کے ساتھ ہی رخصت ہو گئ؟میں……ہر جگہ اس پیداوار کا انتظار کروں گا جب تمہارے فرزند،تمہاری قوم کے مرد، میدانِ عمل میں نکلیں گے۔میں انھیں اسلام کا پرچار کرنے میں معاون ہونگا،میں انہیں ان اندھیریی راہوں میں روشنی کی مشعل تھماؤں گا۔جس پر چل کر وہ اپنی منزل پا لیں وہ میری معیت میں اسلام اور زندگی کا مقصد پا لیں۔ اگر اے مسلمان قوم کی ماں!تو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر لے تو اس جنت کو قدموں تلے رکھنے کی مستحق اس وقت ثابت ہو گی جب تو اپنے بچے کو اسلام کے نام پر جینا اور مرنا سکھائے گی۔میں نے پیغام پہنچا دیا مگر میری آمد کا مقصد اس وقت پورا ہو گا جب میں اپنی غفلت زدہ قوم میں بیداری کی پہلی کروٹ دیکھوں ۔حتیٰ کہ اللہ کے نام کا ڈنکا ہر سو بجنے لگے۔

! لیکن اے امِّ مسلم زشامِ مابروں آورسحررا زقرآں بازخواں اھلِ نظررا نمے دانی کہ سوزِ قراءتِ تو دگرگوں کرد تقدیرِ عمر را !میری امت کی تاریک شب میں سپیدہ سحر کی نوید لا دے،اے مسلم عورت) پھر سے اس امت کو قرآن کی تلاوت سے آشنا کرا دے،کیا تجھے نہیں معلوم (کہ تری قرات کے سوز سے ھی عمر(رضی اللہ عنہ)کی تقدیر بدل گئ یہ کہہ کر اس نے گھوڑے کی باگیں سنبھال،پشت پر سوار ہو کر ایڑ لگائی اور لمحوں میں میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ : وہ کون تھا؟ میں قیاس آرائی کرتی رہی۔تب میرے اندر سے آوازآئی یہ مسلمان کے’ ایمان” کا استعارہ تھا۔جو تمہاری بصیرت کی آنکھ کھولنے آیا” تھا’۔میں نے اپنے ذہہن میں اس کی ایک ایک بات دہرائی اور نئے عزم کے ساتھ آنکھیں کھول دیں کہ میں نے اپنے سوالوں کا جواب پا لیا تھا،میری بصارت کے ساتھ بصیرت بھی بیدار ہو چکی تھی اور اب مزید خوابِ غفلت میں غرق رہنے کا وقت نہیں تھا۔

مضمون نگار : نور العین عینی